جونپور کا آخری سفر
حضرت نے چند دنوں پنڈوہ شریف میں قیام فرمایا، پھر روح آباد کے لیے روانہ ہو گئے اور یہاں سے جو نپورپہونچے۔ اس بار آپ کا قیام جونپور جامع مسجد میں ہوا، مسجد کے اتر کی جانب آپ کا”چلہ خانہ“ اب بھی زیارت گا ہ نام ہے۔ اس وقت جونپورپر سلطان ابراہیم شرقی کی حکومت تھی، سلطان ابراہیم بڑا علم دوست، نیک دل، دین پسند،فقراء ودرویش نواز تھا۔ سادات کرام کی بڑی عزت کر تاتھا، یہی وجہ تھی کہ اس وقت جونپور علماء، فقراء، اہل علم اور سادات کرام کا مرکز بن گیا تھا، اور جونپور کو شیرازِ ہند کہا جاتا تھا۔
جب آپ کی تشریف آوری کی اطلاع بادشاہ کو ہوئی توفقیر دوست بادشاہ نے حضرت کا شرفِ دیدار حاصل کرنے کا ارادہ کیا، اس وقت ملک العلماء حضرت قاضی شہاب الدین دولت آبادی بھی موجود تھے، جو اس زمانے کے اکا بر روزگار، بلند پایہ اور مایۂ ناز عالم تھے۔قاضی القضاۃ کے عہدے پر فائز تھے، بادشاہ نے جب حضرت غوث العالم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تو قاضی شہاب الدین نے فرمایاکہ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں۔۔۔ صاحب کشف و کرامت اور سید صحیح النسب بزرگ آئے ہیں، مناسب یہ ہے کہ پہلے میں دیکھ آؤں کہ حقیقت کیا ہے؟ چنانچہ پہلے ملک العلماء اور امرائے سلطنت اور علماء کی جماعت کے ساتھ مز اج پرسی کے لیے حاضرہوئے، ملک العلماء نے اپنے رفقاء کو ہدایت کردی کہ خبردار! کوئی علم وفضل کا اظہار نہ کرے،اور نہ ہی کوئی مسئلہ دریافت کرے۔ اس لیے کہ یہ ایسے بزرگ ہیں جن کی شان میں قطعاََ کوئی گستاخی نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے بعد سواری سے اتر کر جامع مسجد کے اندر تشریف لے گئے۔ دیکھا تو آپ کی پیشانی سے نورِ ولایت چمک رہاہے، انتہائی ادب واحترام سے ملنے کے لیے آگے بڑھے،حضرت بھی استقبال کیلیے چند قدم آگے بڑھے۔ اس وقت ملک العلماء قاضی شہاب الدین نے برجستہ یہ شعر پڑھا ؎
چہ خورشیدیست تاباں ازجبینش
کہ خورشید فلک زد ذرّہ گردد
بگوہرسید است دریائے امواج
کہ دریائیجہاں چوں قطرہ گردد
ان کی پیشانی کیسی روشن سورج ہے اس کے سامنے آسمان کا سورج اک ذرّہ ہے،موتی کی قسم سيدامواج سے پروہ سمندرہیں کہ دنیا کا سمندر اس کے سامنے ایک قطرہ ہے۔
اس وقت شیخ ابو الوفاء خوارزمی (متوفی ۸۳۸ ھ) بھی حضرت کی خدمت میں موجودتھے، جو متبحر عالم تھے، اور جن کے بارے میں حضرت نظام الدین یمنی نے ”لطائف اشرفی“ میں لکھا ہے کہ:۔
”شیخ ابوالوفاء خوارزمی بجمیع علوم وفنون آراستہ بو دند“
یعنی حضرت ابو الوفاء خوارزمی تمام علوم وفنون سے آراستہ تھے۔
حضرت کی گفتگو کا یہ انداز تھاکہ وہ جس طبقہ سے ملاقات کرتے تھے، اس کے معیار اور ذوق کے مطابق گفتگو فرماتے تھے۔ ملک العلماء نے ہر چندعلماء سے سوالات کرنے سے منع کر دیا تھا؛ لیکن علماء کے سینوں میں چندمشکل سوالات تھے جن کو پوچھنے کے لیے ان کے دل تڑپ رہے تھے، شیخ ابو الوفاء نے اپنے نورِ فراست سے ان کی تڑپ کو بھانپ لیا۔ حضرت علمی مسائل پرگفتگو فرمارہے تھے، اس سلسلے میں ملک العلماء اورشیخ خوارزمی سے بھی تبادلۂ خیالات ہوا، شیخ خوارزمی نے دورانِ گفتگووہ تمام مسائل حل کر دئیے، جو علماء کے دلوں میں تھے، اورہر سوال کے تشفی بخش جوابات دئیے، ملک العلماء نے بادشاہ کی باریابی کی اجازت طلب کی، حضر ت نے فرمایا میرے نزدیک تم سلطان سے افضل ہو، مگر بادشاہ آئیں توحاکم وقت ہیں ملاقات سے انکار نہیں کرسکتا۔ ملک العلماء جب چلے گئے تو حضرت نے فرمایا کہ ہندوستان میں ایساعالم و فاضل کم دیکھا ہے۔
دوسرے دن حضرت اپنے معمولات میں مصروف تھے کہ سلطان، ملک العلماء کے ہمرہ بڑے ادب سے مسجد میں داخل ہوا، اوربکمالِ ادب حاضرِ خدمت ہوکر شرف ملاقات حاصل کیا۔ اس سے قبل بادشاہ قلع جنادہ پرچڑھائی کرنے کے لیے فوج روانہ کرچکا تھا، اس کے بارے میں اسے ترددتھا؛ لیکن اظہار مدعانہ کر سکا، حضرت نے اپنے نورِ باطن سے ا سکے تردد کو دریافت کرلیا اور اسے اس سلسلے میں بہت تسلی دی اورکامیابی کے لیے دعا فرمائی۔ اور ایک مسند جوحضرت اپنے ہمراہ ولایت سے لائیےتھے سلطان کو عنایت فرمایا۔ تین دن کے بعد بادشاہ پھر حاضر خدمت ہوا،حضرت نے نان وشربت سے اس کی تواضع فرمائی۔ اسی وقت قلعہ جنادہ کے فتح کی خبرآئی سب نے بادشاہ کو مبارکباد دی۔ بادشاہ نے کہاحضرت کو مبارکباد دی جائے۔ اس لئے کہ انہیں کی نظرعنایت سے یہ کامیابی نصیب ہوئی ہے، اس کے بعد بادشاہ کی عقیدت بہت بڑھ گئی، وہ خودحضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کا مرید تھا؛ لیکن اپنے تین شہزادوں کو اسی دن حضرت کی خدمت میں لایا اور انھیں مرید کرایا۔ بادشاہ نے آپ کے جونپورہی رہنے پراصرارکیا۔ آپ نے فرمایا میں سلطان کے حدودسلطنت سے باہر نہیں جاؤںگا، ادھر ملک العلماء کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ بار بارحاضر خدمت ہوتے اور اپنی تصنیفات ”نحو ارشاد،بدیع البيان،تفسیر بحر مواج، جامع الصنادید“ وغیرہ حضرت کی خدمت میں پیش کیا، حضرت نے علم نحو میں”نحوارشاد“ اور علم بیان میں ”بدیع البیان“ کی بہت تعریف فرمایا۔ تفسیربحر مواج کے بارے میں فرمایاکہ اس میں طول بہت ہے،حضرت نے بھی ”ہدایہ کاوہ نسخہ“ دیا،جس پر آپ نے حاشیہ لکھا تھا اور ایک عرصہ بعد ملک العلماء کوخرقہ عنایت فرمایا۔جونپور قیام کے دوران ایک عجیب وغریب واقعہ پیش آیا، یہ واقعہ آپ کے شطحیات سے متعلق ہے۔ اس واقعہ کا ذکر”لطائف اشرفی“ اور ”مکتوبات اشرفی“ دونوں میں پایا جاتا ہے۔ ایک دن آپ جامع مسجدجونپور میں تشریف فرما تھے۔ آپ کی خدمت میں شیخ ابوالمکارم،خواجہ ابوالوفاء خوارزمی، قاضی رفیع الدین اودھی وغیرہ بھی موجود تھے۔آپ پر اچانک ایک جذب اور وجدکی حالت طاری ہوئی اسی عالم میں آپ نے فرمایا کہ:۔
”الناس کلھم عبد لعبدی“ یعنی سارے لوگ میرے بندے کے بندے ہیں۔
جاں نثاروں نے ہر چند کوشش کیا کہ حضرت کی زبان مبارک سے نکلا ہوا یہ جملہ غیروں تک نہ پہونچے اس لیے کہ علماء ظاہر اس راز سے ناواقف ہیں،لیکن کسی طرح یہ خبرشہر کے علماء میں پھیل گئی اور شہر میں حضرت کے خلاف ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا، ہر طرف اس قول کی مخالفت میں باتیں ہونے لگیں، بعض علماء، تو آپ سے بحث کے لیے تیار تھے، قاضی شہاب الدین کو جب یہ معلوم ہوا تو انھوں نے کہا کہ کسی کو علم نہیں کہ درویش نے کس حالت اورکس وجہ سے یہ جملہ کہا ہے؟ تمہیں اس پر اعتراض نہ کرنا چاہیے، لیکن لوگوں نے کہاجس شہر میں بڑے بڑے عالم و فاضل اور درویش موجود ہوں کوئی ایسا متکبرانہ جملہ کہہ کر چلاجائے ٹھیک نہیں معلوم ہوتا۔ اس پران سے بحث واعتراض کرنا ضروری ہے۔ چنا نچہ ایک چرب زبان طالب علم جس کا نام محمودبہیہ تھا،آپ سے بحث کے لئے تیار کیا گیا۔ قاضی صاحب نے کہا کہ یہ طالب علم سخت مزاج اورچرب زبان ہے۔ ابھی مشائخ کی مجلس کے آداب سے نا آشنا ہے، ممکن ہے کہ کوئی ایسی بات کہہ دے جو حضرت کو ناگوار گذرے۔ ان شاء اللہ میں کل خود ہی جاؤں گا اور اس قول کا مفہوم دریافت کروں گا، دوسرے دن قاضی صاحب حضرت کی خدمت میں حاضر ہو ئے، حضرت کا یہ دستورتھا کہ آنے والے کے معیار اور ذوق کے مطابق گفتگو فرماتے تھے۔چنانچہ آپ نے فقہ کے مسائل سے گفتگو شروع فرمائی، اس کے بعد حقائق ومعارف بیان کئے، حاضرین حضرت کی گفتگو سنتے رہے۔ قاضی صاحب کو حضرت سے کچھ پوچھنے کی جرأت نہ ہوئی، اور رخصت ہونا چاہا، حضرت کو نور باطن سے معلوم ہوگیا تھا۔ فرمایا شاید آپ کوئی بات پوچھنے آئے تھے؟ قاضی صاحب نے عرض کیا کہ علماء نے مجھے بتایا کہ کل مسجد میں آ پ کی زبان مبارک سے ایک جملہ نکلا تھا ”الناس كلهم عبد لعبدی“علماء شہر میں آپ کے قول پربڑی بحث ہے، اسی کو سمجھنا چاہتا ہوں۔ حضرت نے فرمایاکہ اس کامفہوم بہت آسان ہے۔ الناس پرالف لام عہد کا ہے، مفہوم یہ ہے کہ اکثرلوگ ہوا وہوس کے بندے ہیں۔ اور خدانے ہوا وہوس کومیرا بندہ اور غلام بنادیا ہے۔ چونکہ اکثر لوگ ہوا وہوس اور خواہشاتِ نفسانی کے بندے ہیں اس لیے لوگ میرے بندے کے بندے ہیں اور میرے غلام کے غلام ہیں۔ اس کے بعد حضرت غوث العالم نے حضرت علّامہ جامی رحمتہ اللہ علیہ کے دوشعرپڑھے،جو انھوں نے بادشاہِ مصر کے جواب میں لکھا تھا ؎
از حرص و ہوا دوبندہ دارم
در ملک خدائے پادشاہم
توبندۂ بندگان مائی
از بندۂ بندگان چہ خواہم
حرص وہوس ہمارے دو غلام ہیں۔ اور میں اپنے خدا کے ملک میں باشاہ ہوں۔ جب تم ہمارے غلاموں کے غلام ہوتو میں اپنے غلام سے کیاچاہوں؟۔
قاضی صاحب کو اطمینان ہوگیا اور بہت خوش ہو کرواپس ہوئے۔ اس کے بعد حضرت نے فرمایا کہ میرا یہ جملہ کس رو سیاہ* نے علماء کی محفل میں بیان کیا؟جس نے لوگوں کو بتایاتھا اتفاق سے وہ بھی موجود تھا، حضرت کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلتے ہی اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ قاضی صاحب حضرت سے بے پناہ عقیدت و محبت رکھتے تھے۔ اور حضرت بھی قاضی صاحب کوبہت چاہتے تھے، حضرت نے قاضی صاحب کو ملک العلماء کے خطاب سے نوازا۔
For Contact Us
Go to Contact Page
or
Mail:contact@makhdoomashraf.com
Cal:+91-9415721972